Orhan

Add To collaction

محبت ہو گئی ہے

محبت ہو گئی ہے 
از قلم اسریٰ رحمٰن
قسط نمبر1

شادی کا ماحول تھا ہر طرف خوشیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ہر کوئی ہنسی مذاق میں لگا ہوا تھا۔ بزرگوں کی الگ سیاست لگی ہوئی تھی نوجوان نسل الگ اپنی ٹولیاں بنانے بیٹھے تھے۔غرض کہ ہر کوئی خوش تھا ہر طرف ہنسی قہقہوں کا شور تھا۔
  "عفیرہ تمہیں امی کب سے ڈھونڈ رہی ہیں۔ جاؤ انہیں تم سے کوئی ضروری کام ہے۔" بڑی بھابھی نے پھولی سانسوں کے ساتھ اس سے کہا تھا جو کبھی پھولوں کی تھال لئے ادھر سے ادھر کرتی تو کبھی مہمانوں کو چاۓ کافی سرو کرتی نظر آتی تو کبھی اپنے کزنز کے ساتھ ہنسی ٹھٹھولیاں کرتی پایی جاتی تو کبھی بچوں کے ساتھ بچی بنی نظر آتی۔
"کدھر ہیں امی۔۔میں نے تو کافی دیر سے انہیں نہیں دیکھا" ایک ہاتھ سے اپنے پیلے رنگ کے بھاری بھرکم لہنگے کو پکڑے دوسرے ہاتھ میں کافی کی ٹرے پکڑے وہ جیسے گھنچکر بنی ہوئی تھی۔ بڑی بھابھی نے مسکرا کر اپنی معصوم سی نند کو دیکھا تھا۔
"لاؤ یہ ٹرے مجھے دو میں مہمانوں کو دیکھتی ہوں تم امی کے پاس جاؤ وہ اپنے روم میں ہیں کچھ ضروری کام ہے انہیں تم سے۔۔"
"میں بس ابھی گیٔ اور ابھی آییٔ"
"نہیں تم آرام سے جاؤ اور آرام سے آؤ اتنی جلدی کی کوئی ضرورت نہیں ہے" بھابھی نے دھیرے سے اسے دھپ لگائی تو وہ ہنستی ہوئی امی کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
________🌼🌼🌼🌼🌼🌼___________
"امی آپ نے مجھے بلایا" وہ دروازہ کھول کر جیسے ہی اندر داخل ہوئی سامنے بیڈ پر ابو کے ساتھ ایک باوقار اور خوبصورت سے شخص کو بیٹھے دیکھا جبکہ امی پاس ہی صوفے پر بیٹھے تھیں۔
"عفیرہ میں کب سے تمہیں ڈھونڈ رہی ہوں ادھر آؤ" امی نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس صوفے پر بیٹھنے کو کہا تو وہ دھیرے سے ان کے پاس جاکر بیٹھ گئی۔
"یہ رہی اس گھر کی لاڈلی اور آپ کی بھتیجی عفیرہ۔۔سلام کرو بیٹا۔۔تمہارے چاچو ہیں" امی کے کہنے پر اس نے دھیرے سے سلام کیا۔
"وعلیکم السلام۔۔ ماشاءاللہ بہت پیاری ہے آپ کی بیٹی بھائی صاحب۔۔ نازیہ تو اس کی معصومیت پر فدا ہو جائے گی۔۔ بھئی مجھے تو بہت خوشی ہوئی اپنی بیٹی سے مل کر" 
"میری بیٹی تو حور ہے جنید میرے دل کا چین۔۔اسی کے دم سے تو گھر میں رونق لگی رہتی ہے" جمشید صاحب نے اسے اپنے قریب کرتے ہوئے کہا
"آپ خوش قسمت ہیں بھائی صاحب۔۔ بیٹیاں تو رحمت ہوتی ہیں۔۔اللہ کا قیمتی تحفہ" جنید صاحب کے چہرے پر خاص قسم کی مسکراہٹ تھی
جمشید صاحب کے پاس بیٹھی عفیرہ ان سب کو باتوں میں مگن دیکھ کر امی سے اجازت لے کر کمرے سے اس طرح بھاگی جیسے بلی کی قید سے چوہا بھاگتا ہے۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
"کیا بکواس ہے یہ۔۔۔میں نہیں جاؤں گی"  امی کی بات سن کر وہ ہتھے سے اکھڑ گئی تھی
"تم سے پوچھا کس نے ہے۔۔۔بس تم جا رہی ہو سو جا رہی ہو"
"امی آپ ایسا کیسے کر سکتی ہیں میرے ساتھ" وہ رو دینے کو تھی
"میں ایسا ویسا سب کچھ کر سکتی ہوں" امی تو جیسے "ظالم سماج" بن گئیں تھیں
"یار تمہیں ہی تو گھومنے کا دل کر رہا تھا" زرار بھائی نے اپنے طور سے اسے منانا چاہا
"اکیلے بھی کوئی گھومنے جاتا ہے۔۔وہ بھی اتنی دووووووررررر" اس نے "دور" کو لمبا کھینچا
"تمہاری جگہ میں ہوتی تو ہنسی خوشی چلی جاتی" ثمرہ بھابھی نے اپنے دل کی بات کہی 
"تو آپ چلی جائیں ناں"
"میرا جانے کا کوئی کام ہی نہیں ہے" وہ بڑبڑائیں
"مطلب۔۔؟"
"عفیرہ یار کیوں ضد کر رہی ہو۔۔"
"ضد میں کر رہی ہوں یا آپ"
"میرا چاند جنید تمہیں اپنی بیٹی کی طرح مانتا ہے۔اپنے بابا کی بات مان لے۔۔میں وعدہ کرتا ہوں اگر تمہارا دل نہ لگا تو پہلی فرصت میں تمہیں لے آؤنگا۔۔میں خود" جمشید صاحب نے اسکا سر سہلاتے ہوۓ کہا
"پر بابا آپ کو تو پتا ہے میں آپ لوگوں کے بنا اکیلی نہیں رہ سکتی"
"کچھ ہی دنوں کی بات ہے۔
"پر میں اکیلے کمرے میں کیسے رہوں گی۔۔ مجھے تو اندھیرے سے ڈر لگتا ہے" وہ اب اصل بات پر آئی تھی۔
"ہاہاہا۔۔۔ تو یہ بات ہے" ابرار بھائی کو ہنسی آئی جبکہ باقی سب لوگ اس کی بات پر مسکرا دئیے کیونکہ سب جانتے تھے کہ اسے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے۔
"تم تو میری بہادر بیٹی ہو۔۔ تمہیں کسی چیز سے نہیں ڈرنا چاہیئے۔۔ میں جنید کو بتا دونگا کہ میری بیٹی بہت معصوم ہے"
"معصوم نہیں ڈرپوک بابا" ابرار کے چھیڑنے پر اس نے اسے گھورا
"تو میرا چندا راضی ہوا؟"
"جی بابا۔۔ لیکن اگر میں بور ہوئی تو واپس آجاؤں گی" اس نے اپنا فیصلہ سنایا
"ہاں بالکل بالکل" سب ایک ساتھ بولے
"لیکن میری پیکنگ آپ لوگ کریں گیں" اس نے بھابھیوں کی طرف اشارہ کیا
"بدتمیز لڑکی۔۔۔"
"ورنہ میں نہیں جاؤنگی" اس نے منجھلی بھابھی کی بات بیچ میں کاٹ کر دھمکی
"اچھا میری ماں منظور ہے" بڑی بھابھی نے ہار مانتے ہوۓ کہا اور باقی سب کے ساتھ مل کر اس کی پیکنگ کرنے لگیں کیونکہ ایک دن بعد کا اسکا ٹکٹ تھا۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
زرار بھائی کے ساتھ اسٹیشن پر کھڑی اِدھر اُدھر نظریں دوڑا رہی تھی کہ اسے چاچو سامنے سے آتے ہوۓ نظر آۓ۔
"آ گئ میری بیٹی" وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔اس نے دھیرے سے انہیں سلام کیا۔
"چلو بیٹا گھر تمہاری چاچی تم لوگوں کا بے صبری سے انتظار کر رہی ہیں"
"سوری چاچو پر میں نہیں آسکتا۔۔ آفس کے کام سے مجھے کہیں اور جانا ہے"ابرار بھائی نے دھیرے سے کہا
"ارے بیٹا تو کل چلے جانا۔۔ اپنی چاچی سے تومل لو"
"پھر کبھی چاچو فرصت سے آؤنگا انشاءاللہ۔۔ میری سیٹ بُک نہ ہوتی تو میں ضرور رکتا۔۔ پر مجبوری ہے"
"ٹھیک ہے بیٹا جیسی تمہاری مرضی۔۔۔ میں فورس نہیں کرونگا۔۔ لیکن عفیرہ تب تک میرے پاس رہےگی جب تک میں چاہونگا" انہوں نے وارننگ دی
"ہاہاہا۔۔ضرور چاچو۔۔یہ آئی ہے اپنی مرضی سے لیکن جائیگی آپ کی مرضی سے" اس شرارتی نظروں سے عفیرہ کو دیکھا جو اسے گھور رہی تھی
"اچھا چاچو میں چلتا ہوں۔۔۔ بیسٹ آف لک بہنا" چاچو سے مصافحہ کرنے کے بعد وہ اس کی طرف مڑا
"اپنا خیال رکھنا اور خوب انجوائے کرنا" اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور دھیرے سے سلام کرکے رینگتی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔

   4
0 Comments